تعلیم یافتہ لوگ کامیاب کیوں نہیں ہوتے؟
تعلیم یافتہ لوگ کامیاب کیوں نہیں ہوتے؟
نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا ہر کلاس میں اول پوزیشن حاصل کی کتابیں پڑھنے کا شوق بھی تھا دنیا جہان کی بیسٹ سیلر کتابیں پڑھ رکھی تھی شخصیت بھی دل اویز تھی صاف ستھری زندگی گزار رہا تھا اور ذہنی طور پر بھی چست اور مہذب تھا لیکن اس کے باوجود وہ ٹینشن اور ایگزائٹی کا شکار تھا تین سال میں چھ نوکریاں بدل چکا تھا اپنا کام بھی شروع کیا اور اس میں بھی ناکام ہو گئے چنانچہ وہ کیریئر کرائسز کا شکار تھا میں نے اسے جم میں بلا لیا میں ایکسرسائز کرتا رہا اور نوجوان اپنی کہانی سناتا رہا اس کا کہنا تھا کہ اللہ تعالی نے مجھے تعلیم اور عقل دونوں دے رکھی ہیں مگر میں اس کے باوجود کامیاب نہیں ہو رہا جبکہ میری کلاس کے نالائق اس وقت پانچ پانچ کروڑ کی گاڑیوں میں بیٹھے ہیں اور میں اپنے والد کی سوزوکی کار بھی بیچنے پر مجبور ہوں کیوں ؟
میں اس کا مسئلہ سمجھ گیا میں نے اسے آرام کرنے کا مشورہ دیا اور اسے کہا ہم شام کے وقت ملاقات کریں گے اور میں تمہیں تمہارے مسئلے کا حل بتاؤں گا میں اس کے بعد اپنے روزانہ کے معمول میں مصروف ہو گیا شام کے وقت واپس آیا اور اسے لے کر اپنے ایک دوست کے پاس چلا گیا میرا یہ دوست کامیاب بزنس مین ہے ڈیڑھ ارب روپے کے گھر میں رہتا ہے پانچ چھ کمپنیاں چلا رہا ہے اور ان کمپنی میں ہزار، ہزار 1200 لوگ کام کرتے ہیں میں نے نوجوان کا اس کام یا ب بزنس مین سے تعارف کرایا اور اس کے بعد اس سے پوچھا مرزا صاحب آپ بتائیں آپ کی تعلیم کتنی ہے مرزا صاحب نے ہنس کر جواب دیا میٹرک فیل میں نے پوچھا آپ نے زندگی میں کبھی کوئی کتاب پڑھی ہو مرزا صاحب کا جواب تھا میں نے بچپن میں داستان امیر حمزہ پڑھی تھی اور وہ بھی بھول گیا ہوں بس ٹائٹل یاد ہے میں نے اس کے بعد پوچھا آپ نے پھر اتنی دولت کیسے کمائی وہ ہنس کر بولے میں مکمل سیلف میڈ ہوں والد منڈی میں چاولوں کا کاروبار کرتے تھے اور میں اس میں بھی گھاٹا پڑ گیا چنانچہ مجھے میٹرک میں تعلیم چھوڑ کر کام کرنا پڑ گیا بس اللہ تعالی نے ہاتھ پکڑ لیا اور اس کا فضل ہو گیا ہم اس کے بعد دیر تک گپ شپ لگاتے رہے میں نے واپسی پر راستے میں نوجوان سے پوچھا آپ کا کیا خیال ہے اس شخص نے کیسے دولت کمائی نوجوان سوچ کر بولا مجھے یہی پریشانی ہے اللہ تعالی جاہلوں اور کم عقلوں کو زیادہ نوازتا ہے جبکہ ہم جیسے پڑھے لکھے سڑکوں پر دھکے کھاتے رہتے ہیں ۔
میں نے عرض کیا 99 فیصد نوجوان یہی سمجھتے ہیں یہ دولت اور کامیابی کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے ناکام ہے یہ تصور غلط ہے نوجوان اپروچ میں مار کھا رہے ہیں یہ سمجھتے ہیں دولت اور کامیابی عقل اور تعلیم کی دین ہوتی ہے آپ اگر ذہین ہیں اور آپ نے اگر اس کے ساتھ یونیورسٹی ٹاپ کر لیا ہے تو پھر دولت تو پھر دولت اور کامیابی آپ کا حق ہو گیا جبکہ کامیابی اور دولت کا عقل اور تعلیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا مثلا میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں پنجاب کی خوبصورت ترین طوائف مورا ںایک دن راجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں ناچ رہی تھی ناچتے ناچتے اس نے پہلے اپنے گلاب جیسے پاؤں دیکھے دربار کے شیشوں میں اپنے حسن کا ایکس دیکھا اور پھر سامنے تخت پر بیٹھے کانے بد صورت اور بے ڈھنگے رنجیت سنگھ کو دیکھا اور اس کی ہنسی نکل گئی رجیت سنگھ کائیاں شخص تھا اور اس کی تنزیہ ہنسی بھانپ گیا اور اس نے رقص رکوا کر موراںسے پوچھا تم مجھے دیکھ کر کیوں ہنسی تھی موراںڈر گئی بادشاہ اس کا خوف بھی بھانپ گیا لہذا اس نے اسے جان کے امان دے کر پوچھا تو مجھے دیکھ کر کیوں ہنسی تھی موراںنے ہاتھ جوڑ کر کہا حضور میں نےپہلے شیشے میں اپنا سراپہ دیکھا اور اس کے بعد جب آپ پر نظر پڑی تو میرے دل میں آیا اپنے زمانے کی سب سے خوبصورت عورت کس کے سامنے ناچ رہی ہے اور مجھے اس کے ساتھ ہی قدرت کی ستم ظریفی پر ہنسی آگئی رجیت سنگھ نے قہقہ لگایا اور کہا موراںدنیا جب بن رہی تھی تو اس وقت رب کے سامنے دو قطاریں لگی تھیں ایک قطار میں خوبصورتی ذہانت اور علم کے متلاشی لوگ کھڑے تھے جبکہ دوسری قطار میں صرف اللہ کے کرم کے متمنی لوگ تھے تم اس وقت پہلی قطار میں تھی
اور میں دوسری میں اللہ تعالی نے تمہاری بھی سنی اور میری بھی تم خوش شکل ہو گئی اور میں خوش نصیب اور یہ حقیقت ہے خوش شکل خوش عقل اور خوش علم لوگوں کی خوش نصیبوں کے دربار میں ناچنا پڑتا ہے لہذا تم ناچ رہی ہو اور میں خوش ہو رہا ہوں بات صرف اتنی ہے میں نے نوجوان کو یہ حکایت سنانے کے بعد پوچھا یہ بات سننے اور سنانے میں اچھی لگتی ہے مگر ہے یہ بھی غلط ہے اصل ایشو کوئی اور ہے نوجوان نے مسکرا کر کہا اصل ایشو کیا ہے میں نے ہنس کر جواب دیا کامیابی اور دولت دونوں سکل سے آتی ہیں اس کے لیے ہنر چاہیے اور ہنر کا علم اور عقل دونوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں مثلا راولپنڈی اور اسلام آباد میں چکن پلاؤ کا ایک برائنڈ ہے یہ 20 ارب روپے کا برینڈ ہے مگر اسے بنانے والا اور چلانے والا ان پڑھ بھی تھا اور ذہنی طور پر ایوریج بھی لیکن اس کے پاس درجنوں اعلی تعلیم یافتہ اور ذہین لوگ ملازم ہیں اس کے پاس اعلی تعلیم یافتہ درجنوں لوگ ملازم ہیں کیوں اور کیسے وجہ سیدھی اور سادھی ہے اس شخص میں اعلی پائے کا سستا پلاؤ بنانے کا ہنر تھا وہ تھوڑے سے سازو سامان سے کم قیمت میں انتہائی لذیذ پلاؤ بنا لیتا تھا چنانچہ اس کے گاہک بڑھتے گئے اور ترقی کرتا گیا مثلا میں آپ کو جس مرزا صاحب کے پاس لے کر گیا تھا وہ ڈیل میکر ہے آپ اسے جو بائیڈن کے ساتھ بٹھا دیں یہ اس سے بھی کوئی نہ کوئی ڈیل لے لے گا اس کی ساری گروتھ اس کی اس سکل کے ارد گرد گھومتی ہے یہ ایک بار بینکوں کا مقروض ہو گیا تھا مگر اس نے بینکوں سے آدھ گھنٹے میں ایک ایسی ڈیل کر لی جس سے یہ مکھن کے بال کی طرح بحران سے نکل گیا
میں نے کسی جگہ پاکستان کے ایک نوجوان کے بارے میں پڑھا تھا اس نے ماتھے سے انڈے توڑنے کی سکل ڈیویلپ کر لی اور اس نے اس کے ذریعے اپنا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرا لیا اور آپ گینز بک آف ورڈ ریکارڈ کو بھی دیکھ لیجیے اس کے مالک ہیوبیور نے 1955 میں دنیا جہاں کے منفرد لوگوں کے پروفائل چھاپ کر نئی دنیا کی بنیاد رکھی چنانچہ یہ یاد رکھیں دنیا میں صرف سکل بکتی ہے آپ کے پاس جب تک کوئی ہنر نہیں ہوگا آپ اس وقت تک کامیاب اور امیر نہیں ہو سکیں گے دولت ایک دروازہ ہے یہ دروازہ صرف سکل کی چابی سے کھلتا ہے جبکہ لوگ اسے ذہانت اور تعلیم کی چابی سے کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں آپ خود یہ فیصلہ کریں یہ کیسے کھلے گا نوجوان تھوڑا سا سوچ کر بولا آپ نے ابھی راجہ رجیت سنگھ کی کہانی سنائی تھی وہ مقدر کو اپنی کامیابی کی وجہ قرار دے رہا تھا میں نے ہنس کر جواب دیا سکل مقدر کا دوسرا نام ہے اور ریاضت یعنی پریکٹس تیسرا رجیت سنگھ ٹیم مکینک کا ایکسپرٹ تھا وہ ماہراورہنرمندوں کو اکٹھا کر لیتا تھا وہ پنجاب کا پہلا حکمران تھا جس نے فوج میں فرینچ اور اٹالین افسر بھرتی کیے اس کے زمانے میں پنجابی فوج کا آرمی چیف فرنچ جنرل یان بٹسٹا وچورا تھا جبکہ مسلمان دانشور فقیر عزیز الدین اس کا وزیر تھا
اس نے مسلمان عورت مورا ںسے شادی کی اور مورا ںنے لاہور میں مورا ںمسجد بنائی اور وہ مرنے تک مسلمان رہی وہ مردم شناس تھا وہ ہزاروں لوگوں میں سے اپنے کام کا بندہ تلاش کر لیتا تھا اور پھر اسے اس کی صلاحیت کے مطابق عہدہ دیتا تھا چنانچہ اگر یہ کہا جائے مردم شناسی اس کی سکل تھی تو یہ غلط نہیں ہوگا اور یہی اس کے مقدر اور کامیابی کی وجہ تھی اب سوال یہ ہے کہ ہم اپنی مہارت یا فن کو سکل اور سکل کو کامیابی اور کامیابی کو دولت میں کیسے تبدیل کر سکتے ہیں یہ سائنس بھی بہت آسان ہے آپ کوئی کام سیکھیں اور پھر اس کی پریکٹس شروع کر دیں اتنی پریکٹس کریں اتنی پریکٹس کریں کہ آپ وہ کام آنکھیں اور کان بند کر کے بھی کر سکیں بالکل طبلہ نواز بیٹس مین اور تندورچی کی طرح طبلہ نواز بیٹسمین اور تندورچی کے ہاتھ ان کی سوچ سے تیز چلتے ہیں اور یہی ان کی کامیابی ہوتی ہے۔اور جب آپ کو اپنی سکل کا ریٹرن آنے لگے تو پھر آپ اسے دولت میں تبدیل کر دیں سرمایہ کاری سیکھیں آپ مرزا صاحب بن جائیں جبکہ آپ لوگوں اور ہماری یونیورسٹی میں یہ خرابی ہے یہ طالب علموں کوصرف ڈگریاں دیتی ہیں سکل نہیں دیتی میڈیکل کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹیز سےنکلنے والے طالب علم کے پاس صرف ڈگری ہوتی ہے یہ انجینیئر یا ڈاکٹر نہیں ہوتا جبکہ پیسے کمانے کے لیے اس کا ڈاکٹر انجینیئر ہونا ضروری ہوتا ہے کاش ہماری یونیورسٹیاں ڈگری سے سکیلز پر شفٹ ہو جائیں اور آپ لوگ کامیابی کے دروازہ ذہانت اور تعلیم کی چابی سے کھولنے کی بجائے سکل سے کھولیں یہ یاد رکھو تعلیم انسان کو وزن دیتی ہے وہ دولت نہیں دولت بہرحال آپ کو اپنے فن اور اپنے ہنر سے ہی کمانی پڑتی ہے آپ اپنے فن کو جتنا بہتر بناتے رہیں گے آپ اتنے امیر ہوتے جائیں گے لہذا کوئی ہنر سیکھو اور ابراہیم لنکن کا یہ قول یاد رکھو میں جتنی محنت (پریکٹس )کرتا گیا میں اتنا ہی خوش نصیب ہوتا چلا گیا۔بشکریہ روزنامہ ایکسپریس