ایران یا افغانستان سے جنگ کی گنجائش نہیں، صدر مملکت نے وزیراعظم کو ایمرجنسی کی سمری بھیجی تو الیکشن کا انعقاد خطرے میں پڑ جائیگا۔۔؟ حفیظ اللہ نیازی

ایران یا افغانستان سے جنگملتان (خصوصی رپورٹ)لگتا ہے، الیکشن ”وڑ“ چکے، قوی امکان ہے کہ صدر مملکت کو وزیراعظم ایمرجنسی کی سمری بھیج دیں گے۔ ایسی صورت میں الیکشن کا انعقاد خطرے میں پڑ جائیگا۔افغانستان یا ایران سے جنگ کی کوئی گنجائش نہیں، پاکستان کا ردِ عمل ٹھیک ٹھاک اور ناگزیر تھا۔تنگ آمد بجنگ آمد! جواباً پاکستان کا 7 میزائل داغنا عین حق و انصاف پر مبنی ہے۔قوم کو صدمے سے نکالنا، ریاست کا فرض اولین تھا۔ پاکستان ایران تناو?، ایسی انہونی کیونکر ممکن ہوئی؟ تانے بانے یقینی طور پر غزہ جنگ سے ہی جڑیں گے۔سینئر تجزیہ کار و کالم نگار حفیظ اللہ نیازی نے ”روزنامہ جنگ ” میں شائع ہونیوالے اپنے کالم بعنوان ”آپریشن مرگ برسر مچار!” میں اہم تفصیلات شیئر کر دیں۔

کالم میں انہوں نے لکھا کہ لگتا ہے، الیکشن ”وڑ“ چکے۔ وزیراعظم پاکستان بیرون ملک اپنا دورہ چھوڑ کر واپس پہنچنے کو ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ پہلی ترجیح ہوگی۔ قوی امکان ہے کہ صدر مملکت کو وزیراعظم ایمرجنسی کی سمری بھیج دیں گے۔ ایسی صورت میں الیکشن کا انعقاد خطرے میں پڑ جائیگا۔ باوجود یکہ پاکستان کی افغانستان یا ایران سے جنگ کی کوئی گنجائش نہیں، پاکستان کا ردِ عمل ٹھیک ٹھاک اور ناگزیر تھا، اب معاملات ٹھیک کرنا پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ جوابی حملہ اشد ضروری اور مجبوری کہ ایران نے ہمیں بند گلی میں دھکیل دیا۔ 24 گھنٹے کے اندر جواب ہی تو حمیتِ قومی کا تقاضا تھا۔ ایسا ملک جو ہر مشکل میں پاکستان کیساتھ ڈٹ کر کھڑا رہا، دو مسلمان بھائی ایک دوسرے پر گولہ بارود برسائیں ناقابلِ یقین اور ناقابلِ بیان ہے۔ ایرانی جارحیت افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔ یقین ہے دونوں ممالک مل بیٹھ کر حل نکالیں۔ غلط فہمیاں دور ہونگی اور دوبارہ سے جڑ جائیں گے۔ دلجمعی سے سمجھتا ہوں، واقعہ کا تعلق غزہ میں جاری جارحیت سے ہے، محیرالعقول اور انتہائی پیچیدہ ہے۔ غزہ جنگ آج بحیرہ احمر میں داخل ہوچکی ہے۔ لبنان اور یمن کو لپیٹ لیا ہے۔ اہم ترین بحری تجارتی و تزویراتی گزرگاہ بحیرہ احمر ہی ہے، اس وقت یمنی حوثیوں کے حملوں کی زد میں ہے۔ امریکی اسرائیلی بحری بیڑے روزانہ کی بنیاد پر نشانہ بن رہے ہیں۔

کالم میں حفیظ اللہ نیازی نے مزید لکھا کہ حقیقت یہ بھی کہ مسلمانوں پر تسلسل سے ڈھائے امریکی مظالم کیخلاف اکیلا ایران ہر جگہ دامے درمے سخنے موجود تھا۔ مصری اخوان المسلمین، حماس، حزب اللہ، افغان مجاہدین، حوثی تحریک یا شام حکومت کا بچاؤ، امریکہ خلاف ہر مزاحمت تحریک کا تن من دھن سے مددگار بنا۔ اگر حماس 4ماہ سے کسی طور اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا رہی ہے، تو اسکا کریڈٹ ایران کو ہی جائیگا۔ یہ امکان موجود کہ روس بھی شاملِ حال ہو۔ اسرائیل امریکہ گٹھ جوڑ کا دوسرا دردِ سر، خلیج عدن، بحیرہ احمر بمع سوئیز کینال جو دنیا کی اہم ترین تجارتی اور تزویراتی گزرگاہ ہیں۔ جنگ کی صورت میں بہت بڑا اقتصادی بحران پیدا ہوگا۔ امریکہ جان پر کھیل کر یہاں اپنا قبضہ مضبوط رکھے گا۔ اس گزرگاہ سے گزرنے والے تمام جنگی یا تجارتی بحری بیڑے آج یمنی حوثیوں کی زد میں ہیں۔ کسی وقت بھی بحیرہ احمر کو بند کر سکتے ہیں۔ جنگ پھیلنے کی صورت میں روس چین بھی لڑیں گے۔ ان حوثیوں کے حملوں کا ذمہ دار امریکہ اسرائیل ایران کو ٹھہرا رہے ہیں۔

کالم کے آخر میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ امریکہ آبنائے ہرمز کے اردگرد تیل کے ذخائر کا اکلوتا دعویدار، متزلزل ہو چکا ہے۔ امریکہ کی پہلی ترجیح ایران اور پاکستان کو آپس میں الجھانا ہے۔ پاکستان ایران لڑائی کا ایک نقصان کہ جنگ میں غزہ پر ڈھائے گئے مظالم سے توجہ ہٹ جائے گی۔ دوسری طرف ایران کو اپنے تئیں ہی عراق ایران جنگ طرز پر نئی الجھن میں بھٹکانے کی کوشش ہے۔ دبے لفظوں میں کوئی ملی بھگت بھی کہ ایران امریکہ کے ہاتھوں انجانے میں استعمال ہو گیا ہے۔ امید ہے کہ عقل غالب آئے گی۔ ایران اور پاکستان اس تنازعہ کو فوراً حل کریں گے، ماضی کی طرح مثالی بھائی بن کر رہیں گے۔

منیر احمد ڈاہر

منیر احمد ڈاہر ایک پاکستانی صحافی ہیں اور اردوفرسٹ نیوز کے چیف ایڈیٹر ہیں، ساتھ ساتھ وہ پاکستان کے نامور'92 نیوز میڈیا گروپ' کے نمائندہ بھی ہیں آپ کاتعلق وہاڑی کی تحصیل بوریوالا کی ڈاہر فیملی سے ہے آپ ستلج پریس کلب (رجسٹرڈ) ساہوکا کے بانی صدر بھی ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button