سنا تو یہ تھا کہ آزاد ہوگئے ہیں ہم
عنوان :وہ ایک خواب تھا
مرے وطن تری دیکھوں لہو میں تصویریں تیری عوام نے پہنی ہوئی ہیں زنجیریں
ترے مکین فقیروں کے خوں پسینے سے
بنارہے ہیں یہ زردار اپنی جاگیریں
عجیب دشت میں فریاد ہوگئے ہیں ہم
سنا تو یہ تھا کہ آزاد ہوگئے ہیں ہم
عزیز جاں سے رکھا تو بے نظیروں نے
لہو دیا ہے تجھے قوم کے فقیروں نے
ترے وجود کے ذرے گلاب ہیں لیکن
ترے جمال کو نوچا تو بے ضمیروں نے
بڑے ہی شاد تھے فریاد ہوگئے ہیں ہم
سنا تو یہ تھا کہ آزاد ہوگئے ہیں ہم
بڑے وہ سانپ چھپے ہیں جو آستینوں میں
کوئی وہ غیر نہیں ہیں ، ہیں ہم نشینوں میں
پڑے ہوئے ہیں جو سجدے میں تیرے دشمن کے
نہیں ہے غیر ت ِایمان ان جبینوں میں
وہ ایک خواب تھا برباد ہوگئے ہیں ہم
سنا تو یہ تھا کہ آزاد ہوگئے ہیں ہم