تل ابیب،غزہ،پیر س،جدہ(مانیٹر نگ ڈیسک،نیوز ایجنسیاں) غزہ پر اسرائیلی فوج کے حملے جاری ہیں، صبح سے ابتک امداد کے منتظر 56 فلسطینیوں سمیت مزید 92 فلسطینی شہید ہوگئے۔اسرائیلی فوج نے خان یونس میں ہلال احمر کی عمارت پر بھی بمباری کی جس کے نتیجے میں آگ لگ گئی، عمارت کا کچھ حصہ مکمل تباہ ہوگیا، حملے کے نتیجے میں ہلال احمر کا ایک رکن جام شہادت نوش کرگیا جبکہ اس حملے میں 3 افراد زخمی بھی ہوئے۔فلسطینی ہلال احمر کی جانب سے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیو میں اسرائیلی حملے کے بعد کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔ہسپتال ذرائع کے مطابق 38 فلسطینی ان مقامات پر شہید ہوئے جہاں امریکا اور اسرائیل کی حمایت یافتہ تنظیم امداد تقسیم کر رہی ہے۔اسرائیل نے چند روز قبل اعلان کیا تھا وہ بعض علاقوں میں فوجی کارروائیوں میں عارضی وقفے دے گا تاکہ شہریوں کو امداد حاصل کرنے میں آسانی ہو تاہم بدھ اور جمعرات کو ہی خوراک حاصل کرنے کیلئے آنیوالے 105 فلسطینی مارے گئے۔ادھر اقوام متحدہ کے مطابق اکتوبر 2023 سے جاری جنگ کے دوران اب تک کم از کم 1,373 فلسطینی امداد کے حصول کے دوران شہید کیے جا چکے ہیں جبکہ 169 افراد، جن میں 93 بچے شامل ہیں، بھوک اور غذائی قلت سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔فلسطینی شہریو ں نے الزام لگایا ہے امدادی مراکز کے قریب اسرائیلی فوج اور امریکی سکیورٹی اہلکار جان بوجھ کر امداد کے متلاشیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنقید کے بعد اسرا ئیل نے اردن، متحدہ عرب امارات، مصر، سپین، جرمنی اور فرانس جیسے ممالک کو فضائی امداد کی اجازت دی ہے مگر اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے یہ ناکافی ہے۔ علاوہ ازیں یونیسف نے خبردار کیا ہے غزہ میں غذائی قلت قحط کی حد پار کر چکی ہے، اور 3 لاکھ 20 ہزار بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں کیے گئے فیصلے یہ طے کریں گے ہزاروں بچے زندہ رہیں گے یا مر جائیں گے۔ ادھر اسرائیلی فورسز نے غزہ جنگ کے دوران 95 فیصد کیسز میں فلسطینی بچوں کو سر یا سینے میں سیدھی گولیاں ماریں جو عام طور پر فوری موت کا باعث بنتی ہیں۔ مزید بر آں اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زامیر نے خبردار کیا ہے اگر حماس کے ساتھ مذاکرات میں پیشرفت نہ ہوئی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ نہ ہوسکا تو غزہ میں لڑائی جاری رہے گی۔فرانسیسی ٹی وی رپورٹ کے مطابق جنرل زامیر نے غزہ میں تعینات فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا 49 یرغمالی اب بھی غزہ میں موجود ہیں، غزہ میں موجود یرغمالیوں میں صرف 22 زندہ ہیں، آنے والے دنوں میں یہ واضح ہو جائے گا کہ ہم یرغمالیوں کی رہائی کیلئے کسی معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں یا نہیں، اگر ایسا نہ ہوا تو جنگ بلا تعطل جاری رہے گی۔اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں دیکھا گیا کہ جنرل زامیر غزہ میں ایک کمانڈ سینٹر میں فوجی اہلکاروں سے ملاقات کر رہے تھے۔دوسری طرف غزہ میں بھوک کو جنگی ہتھیار بنانے پر اسرائیل کیخلاف دنیا بھر میں احتجاج کیا گیا۔خالی برتن بجاتے سیکڑوں لوگوں نے لندن اور مانچسٹر میں احتجاجی ریلیاں نکالیں۔مظاہرین نے برطانوی حکومت سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے اور تجارتی تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔تل ابیب میں بھی اسرائیلی شہریوں نے نیتن یاہو حکومت کیخلاف احتجاج کیا اور حکومت سے غزہ میں فوری جنگ بند کرنے، یرغمالیوں کو رہا کرانے کا مطالبہ کیا۔علاوہ ازیں فرانس، آسٹریلیا، جنوبی افریقا اور یمن میں بھی غزہ کے حق میں مظاہرے ہوئے۔ علا وہ ازیں فرانس کے دارالحکومت پیرس کے مشہور مقام پلیس دے لا ریپبلک پر فلسطینیوں کے حق میں بڑا مظاہرہ کیا گیا۔ فلسطینیو ں کے حق میں کئے گئے اس مظاہرے میں فرانسیسی شہریوں کیساتھ ساتھ اراکین پارلیمنٹ، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں نے بھرپور شرکت کی۔مظاہرہ فریڈم فلوٹیلا موومنٹ کی کال پر منعقد ہوا، جس کا مقصد غزہ کی حمایت اور اسرائیلی محاصرے کیخلاف آواز بلند کرنا تھا۔مظاہرین نے ہاتھوں میں فلسطینی پرچم، بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن ’پر فری غزہ‘ اور’بائیکاٹ اسرائیل‘ جیسے نعرے درج تھے۔